1) خداووں کی فہرست ہمیشہ گھٹتی
بڑھتی رہی ۔ اندھیرے میں بھٹکنے والوں کا ہاتھ جس پر بھی پڑگیا وہ خدا بنالی گئی ۔
2) طرح طرح کے خیالی مرکبات ، مثلاً
شیر انسان ، ماہی انسان ، پرند انسان ، چہار سرا ، ہزار دستہ ، خرتوم بینی وغیرہ
بھی مشرکین کے معبودوں میں جگہ پاتے رہے۔
3) انبیاء علیہ السلام کی تعلیم کے
اثر سے جہاں لوگ اللہ واحد قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے وہاں سے خداؤں کی دوسری
اقسام تو رخصت ہو گئیں،
4) مگر انبیاء، اولیاء، شہداء،
صالحین، مجازیب، اقطاب، ابدال، علماء، مشائخ، اور ظل اللہوں کی خدائی پھر
بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی ہی رہی۔
5) فرق صرف یہ ہے کہ ان کے ہاں
اہلکار اعلانیہ الہ، دیوتا، اوتار، یا ابن اللہ کہلاتے ہیں اور یہ انہیں غوث، قطب،
ابدال، اولیاء اور اہل اللہ وغیرہ الفاظ کے پردوں میں چھپاتے ہیں۔
6) گمراہی کے بڑے
اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں۔
7) شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے؟
8) معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے
میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارش کرنے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا
ستیاناس کرکے رکھ دے گا۔
9) اس وقت اللہ تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ ذرا پریشان نہ ہوں ہر بعد کا دور پہلے دور سے آپ کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔
(10پھریہ وعدہ صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے۔
جاہلیت مشرکانہ 314
دوسرا
مابعد الطبعی نظریہ شرک کے اصول پر مبنی ہے۔ اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا
نظام اتفاقی تو نہیں ہے، اور نہ بے خداوند ہے۔ مگر اس کا ایک خداوند Master نہیں بلکہ بہت سے خداوند ہیں۔ یہ خیال چونکہ کسی علمی Scientific
Proofثبوت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض خیال آرائی
پر اس کی بنا ہے، اسلئےموہوم، محسوس اور معقول اشیاء کی طرف خداوندی و الٰہیت کو
منسوب کرنے میں مشرکین کے درمیان ناکبھی اتفاق ہو سکتا ہے، نہ کبھی ہوا ہے۔
اندھیرے میں بھٹکنے والوں کا ہاتھ جس چیز پر بھی پڑ گیا وہ خدا بنا لی گئی۔ اور
خداؤں کی فہرست ہمیشہ گھٹتی بڑھتی رہی۔ فرشتے، جن، ارواح، سیارے، زندہ اور
مردہ انسان، درخت، پہاڑ، جانور، دریا، زمین، آگ سب دیوتا بنا ڈالے گئے۔ بہت سے
معنی مجردہAbstract Ideas
مثلا محبت، حسن، شہوت، قوت، تخلیق، بیماری، جنگ، لکشمی، شکتی، وغیرہ کو بھی خدائی
کا مقام دیا گیا۔ طرح طرح کے خیالی مرکبات، مثلا شیر انسان، ماہی انسان، پرندے
انسان، چہار سرا، ہزار دستہ، خرتوم بینی وغیرہ بھی مشرکین کے معبودوں میں جگہ پاتے
رہے۔
پھر
اس دیو مالا کے گرد اوہام و خرافات Mythology کا ایک عجیب تلسی میں ہوش ربا تیار ہوا ہے جس میں ہر جاہل قوم کی
قوت واہمہ نے اپنی شادابی وہ نادرہ کاری کے وہ وہ دلچسپ نمونے فراہم کیے ہیں کہ
دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جن قوموں میں خداوند اعلی یعنی اللہ کا تصور نمایاں
پایا گیا ہے وہاں تو خدائی کا انتظام کچھ اس طرز کا ہے کہ گویا اللہ تعالی بادشاہ
ہے اور دوسرے خدا اس کے وزیر، درباری، مصاحب، عہدے دار اور اہلکار ہیں۔ مگر انسان
بادشاہ سلامت تک راہ نہیں پا سکتا، اس لیے سارے معاملات ماتحت خداؤں ہی سے وابستہ
رہتے ہیں۔
انبیاء
علیہ السلام کی تعلیم کے اثر سے جہاں لوگ اللہ واحد قہار کی خدائی کے قائل ہو گئے
وہاں سے خداؤں کی دوسری اقسام تو رخصت ہو گئیں، مگر انبیاء، اولیاء، شہداء،
صالحین، مجازیب، اقطاب، ابدال، علماء، مشائخ، اور ظل اللہوں کی خدائی پھر
بھی کسی نہ کسی طرح عقائد میں اپنی جگہ نکالتی ہی رہی۔ مشرکین کے خداؤں کو چھوڑ کر
ان نیک بندوں کو خدا بنا لیا جن کی ساری زندگیاں بندوں کی خدائی ختم کرنے اور صرف
اللہ کی خدائی ثابت کرنے میں صرف ہوئی تھیں۔ ایک طرف مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ،
فاتحہ، زیارت، نیاز، نظر، عرس، صندل، چڑھاوے، نشان، علم، تعزیے اور اسی قسم کے
دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی۔ دوسری طرف کسی علمی ثبوت کے
بغیر ان بزرگوں کی ولادت و وفات، ظہور و غیاب، کرامات و خوارق، اختیارات و تصرفات،
اور اللہ تعالی کے ہاں ان کے تقرب کی کیفیات کے متعلق ایک پوری میتھالوجی تیار ہو
گئی، بت پرست، مشرکین کی میتھالوجی سے ہر طرح لگّا کھا سکتی ہے۔تیسری طرف توسل اور
استمد اور روحانی اور اکتساب فیض وغیرہ ناموں کے خوشنما پردوں میں وہ سب معاملات
جو اللہ اور بندوں کے درمیان ہوتے ہیں، ان بزرگوں سے متعلق ہو گئے اور عملا وہی
حالت قائم ہو گئی جو اللہ کے ماننے والے ان مشرکین کے ہاں ہے جن کے نزدیک پادشاہ
عالم انسان کی رسائی سے بہت دور ہے اور انسان کی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام
امور نیچے کے اہلکاروں ہی سے وابستہ ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان کے ہاں اہلکار
اعلانیہ الہ، دیوتا، اوتار، یا ابن اللہ کہلاتے ہیں اور یہ انہیں غوث، قطب، ابدال،
اولیاء اور اہل اللہ وغیرہ الفاظ کے پردوں میں چھپاتے ہیں۔
مسئلہ شفاعت کے مختلف پہلو 363
شفاعت
کے مسئلے کو قران مجید نے بکثرت مقامات پر اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے
کہ کسی شخص کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کہ شفاعت کون کر سکتا ہے
اور کون نہیں کر سکتا، کس حالت میں کی جاسکتی ہے، اور کس حالت میں نہیں کی جا سکتی
اور کس کے حق میں نافع ہے اور کس کے حق میں نافع نہیں ہے۔ دنیا میں چونکہ لوگوں کی
گمراہی کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں، اس لیے
قران نے اس مسئلے کو اتنا کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش
باقی نہیں چھوڑی۔
شفاعت پر پابندی کی وجہ 367
طٰہٰ
کی آیت میں یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے۔ فرشتے ہوں یا
انبیاء، یا اولیاء، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ کس کا ریکارڈ
کیسا ہے، کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے، اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار
اور کیسی کیسی ذمہ داریوں کے بار لے کر ایا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے
پچھلے کارناموں اور کرتوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اب اس کا
موقف کیا ہے، نیک ہے تو کیسا نیک ہے، اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے، معافی کے
قابل ہے یا نہیں، پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جا
سکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور
صلحاء کو سفارش کی کھلی چھوٹ دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر
دے۔ ایک معمولی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارش
سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیا ناس کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و
آسمان کے فرمان روا سے یہ کیسی توقع کی جا سکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار
گرم ہوگا اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشوا لیں گے۔ کہ ان میں سے کسی
بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان کے نامہ
اعمال کیسے ہیں۔ دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی روش یہ
ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصوروار ماتحت کی سفارش لے کر جاتا ہے
تو اس سے کیا کہتا ہے کہ اپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نافرض شناس،
رشوت خور، اور اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے۔ میں ان کے کرتوتوں سے واقف ہوں اس
لیے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نا فرمائیں۔
روشن مستقبل 379
اور
یقینًا تمہارے لئے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے۔
یہ
خوشخبری اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی حالت میں دی تھی جبکہ چند
مٹھی بھر آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ساری قوم آپ کی مخالف تھی،
بظاہر کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔ اسلام کی شمع مکے ہی میں
ٹمٹما رہی تھی اور اسے بجھا دینے کے لیے ہر طرف طوفان اٹھ رہے تھے۔ اس وقت اللہ
تعالی نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے اپ ذرا پریشان نہ ہوں ہر
بعد کا دور پہلے دور سے آپ کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔ آپ کی قوت، آپ کی عزت و شوکت
اور آپ کی قدر و منزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور اپ کا نفوز و اثر پھیلتا چلا
جائے گا۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہے، اس میں یہ وعدہ بھی شامل ہے
کہ آخرت میں جو مرتبہ آپ کو ملے گا وہ اس مرتبے سے بھی بدرجہا بڑھ کر ہوگا جو دنیا
میں آپ کو حاصل ہوگا۔ طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس رضی
اللہ تعالی عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"میرے سامنے وہ تمام کامیابیاں پیش کی گیئں جو میرے بعد میری امت کو حاصل
ہونے والی ہیں۔ اس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ تب اللہ تعالی نے یہ ارشاد فرمایا کہ
آخرت تمہارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہے۔ "
۔
